You must sign in Login/Signup

New student? Register here

An important facility for 12th class students preparing for short questions urdu 12th class chapter 29 of BISE. Get hundreds of questions to prepare and get better marks in 12th urdu
Generic placeholder image

0

Our database contains a total of 0 questions for urdu Short Questions. You’ll prepare using this huge databank.

Question: 1
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 2- وہی جہاں ہے ترا ، جس کو تو کرے پیدا یہ سنگ و خشت نہیں ، جو تری نگاہ میں ہے
Answer: 1
1-13
شاعر: علامہ محمد اقبال تشریح: انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اسے ایک بنا بنایا ماحول ملتا ہے. کچھ چیزیں اسے وراثت میں ملتی ہیں.اب انسان اپنی کوشش محنت اور مختلف طریقوں سے اپنی دنیا بناتا ہے. مال، جائیداد، زمین، منصب، کارخانہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کردار کی بھی تعمیر کرتا ہے-اقبال کہہ رہے ہیں کہ تیری دنیا میں وہی ہے جسے تونے اپنی کوشش سے بنایا.یعنی اپنی محنت اور کوشش سے تعمیر کیا یا تخلیق کیا.اگر ایسا نہیں تو دوسروں کی کمائی پر تو زندگی بسر کرے گا.دراصل یہاں علامہ اقبال خود داری کی تلقین کررہے ہیں.
Question: 2
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 1 - عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
Answer: 2
2-13
شاعر؛ علامہ محمد اقبال تشریح ؛ اقبال کے ہاں سحر خیزی اور آہ سحر گاہی کی بڑی اہمیت ہے. وہ سمجھتے ہیں کہ سحری کے اوقات میں میرا بیدار ہونا اور اللہ تعالی کے حضور کھڑے ہوکر دعا کرنا ، رونا، آہ زاری کرنا بہت بری بات ہے اور اس سے انسان کی شخصیت نکھرتی ہے اورا س میں وقار اور وزن پیدا ہوتا ہے. یہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی شخص خواجہ فرید الدین عطعر، یا مولانا جلال الدین رومی جیسا مشہور صوفی شاعر ہی کیوں نہ ہویا امام غزالی جیسا فلسفہ اور حکمت کا ماہر ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ خدا سے اپنا قریبی تعلق قائم نہیں کرتا اور اسی سے ہدایت اور راہنمائی کا طالب نہیں ہوتا اس وقت تک اس کی شاعری، فلسفہ، حکمت اور منطق سب بے کار ہیں.
Question: 3
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 1- آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
Answer: 3
3-13
شاعر ؛ علامہ محمد اقبال تشریح : دنیا میں زندگی بسر کرنے کے کئی طریقے ہیں. جرآت اور بے خوفی کا طریقہ یا مصلحت اور بزدلی کا طریقہ بااصول زندگی یا بے اصولی کا راستہ. علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ اگرچہ دنیا میں انسان کو طرح طرح کی آزمائیشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. لیکن اگر کوئی شخص خود کو جواں مرد سمجھتا ہے تو پھر اس کے لیے حق گوئی کے راستے سے انحراف جائز نہیں ہے. علامہ اقبال کہتے ہیں کہ غیر اللہ کا خوف دل سے نکال لینا چاہیے. اور ہمیشہ بے خؤف ہوکر جرآت کے ساتھ اور بہاردری کے ساتھ بے با گانہ طریقے سے اپنی رائے دوسروں تک پہنچانی چاہیے.
Question: 4
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 2- تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا جہان تازہ مری اہ صبح گاہ میں ہے
Answer: 4
4-13
شاعر: علامہ محمد اقبال تشریح : علامہ اقبال کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ علی اصبح بیدار ہوجاتے تھے اور ایک زمانے میں ان کی یہ عادت بھی رہی کہ وہ سحری کے وقت اٹھ کر نوافل ادا کیا کرتے اور خدا کے حضور ہاتھ پھیلا کر اپنے لیے اور امت مسلمہ کے لیے دعا کرتے رہتے. ان کی شاعری میں آہ سحری، آہ سحری، آہ صبح گاہی، نوائے صبح گاہی کا تزکرہ بہت ملتا ہے. سحری کے وقت اٹھنا اور نوافل پڑھنا دینی لحاط سے بھی بہت اچھی بات سمجھی جاتی ہے. اس شعر میں علامہ کہہ رہے ہیں کہ میں صبح کے وقت اٹھ کر جو دعا مانگتا ہوں اور جو مناجات پڑھتا ہوں اور جو کچھ اللہ تعالی سے عرض کرتا ہوں، اس میں بہت سی نئی بتیں اور جہاں معنی آباد ہوتا ہے. علامہ کی بہت سی آرزوئیں دعائیں اور تمنائیں ان کے اشعار میں ڈھل گئیں .
Question: 5
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 2- خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے
Answer: 5
5-13
شاعر : علامہ محمد اقبال تشریح : علامہ اقبال نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور بخوبی جاتنے تھے کہ قوموں کے عروج و زوال کی بنیادی کیا ہیں. اللہ تعالی نے انہیں غیر معمولی بصیرت بھی عطا کی تھی مغربی تہزیب کی خرابیوں کے پیش نظر وہ اسے زوال آمادہ دیکھ رہے تھے. مغربی تہزیب نے ایک بڑے ظالمانہ اسستعمار کی شکل اختیار کرلی تھی. آج ایک صدی بعد اگر چہ یورپ کی ظاہری شان و شوکت برقرار ہے لیکن کمزور قوموں پر ظلم و ستم ، بے انصافی،خاندانی نظام کی تباہی ، دولت کی بے پناہ ہوس اور مادہ پرستانہ زہنیت کی وجہ سے اس کی تباہی یقینی نظر آرہی ہے.
Question: 6
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 1 - اے طائر لاہوتی ، اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
Answer: 6
6-13
شاعر ؛ علامہ محمد اقبال تشریح : انسان کی ضروریات میں سے روزی روٹی سب سے اہم مسئلہ ہے کیون کہ وہ ہر روز بلکہ ہر صبح و شام اس سے دو چار ہوتا ہے. رزق کا حصول اس کی ایک بنیادی اور سب سے فوری ضرورت ہوتی ہے. رزق کے لیے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے. کبھی ایسا کام جو غلط ہو کبھی ایسی بات جو نامناسب ہو، کبھی ایسا راستہ جسے وہ نا پسند کرتا ہو. اقبال انسان کو اور بالخصوص مسلمان کو بہت اونچے مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں وہ اسے عالم بالا یعنی لاہوت کی دنیا میں اڑنے والے پرندے سے تشبیہ دیتے ہیں. یہاں اشارہ شاہیں کی طرف بھی ہے. جو ان کا پسندیدہ پرندہ ہے. ان کے کلام میں کئی جگہ شاہین کا نام ایا ہے. شاہین خود دار ہے قناعت پسند ہے. اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ اپنی نگاہ بلند اور مقاصداعلی رکھنے چاہیں.اور اصولوں کا دامن ہارتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے.
Question: 7
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 2- نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
Answer: 7
7-13
شاعر : علامہ محمد اقبال تشریح : ہر زمانے میں طاقت، قوت اور اقتدار کا حصول لوگوں کاسب سے بڑا مقصد زندگی رہا ہے. مال و دولت اور قوت اور طاقت کو لوگ اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کے زریعے اونچے عہدے تک پہنچنا آسان ہوتا ہے. علامہ اقبال اس شعر میں اہل دنیا کے متزکرہبالا رویے کو نا پسند کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اصل مقصد زندگی مال و دولت یا عہدہ و منصف با بہت بڑی فوج یا بادشاہت نہیں ہونا چاہیے. علامہ اقبال کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا کے ایسے نیک اور متقی بندے بھی موجود ہیں جو دنیاوی شان و شوکت سے بے نیاز ہیں اور انہوں نے اللہ تعالی سے ایک تعلق قائم کرکے پر سکون زندگی کا راز پالیا ہے. اقبال مرد قلندر کا ایک خاص تصور رکھتے ہیں مرد قلندر اصل میں مرد کامل یا مرد مومن ہی کا دوسرا نام ہے.
Question: 8
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی تحریر کریں. غزل نمبر 2- مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا وہ مشت خاک ابھی آوار گان راہ میں ہے
Answer: 8
8-13
شاعر : علامہ محمد اقبال تشریح : علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اس دنیا کی بہترین مخلوق انسان ہے. بے شک وہ مٹی سے بنایا گیا ہے. اور اپنے خالق کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے. لیکن پھر بھٹک جاتا ہے اور بھٹکے ہوئے راہی کی طرح بیابانوں اور ویرانوں میں پریشان اور سرگرداں رہتا ہے. اسے یہ احساس نہیں کہ اس کا مقام تو بالکل مختلف ہےاور ان دنیاوی اور معمولی چیزوں سے اونچا ہے.
Question: 9
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 1 - جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
Answer: 9
9-13
شاعر: علامہ محمد اقبال تشریح : اس شعر میں علامہ اقبال کہہ رہے ہیں کہ عشق بعض اوقات انسان کی تربیت بھی کرتا ہے. اقبال کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ وہ اپنی حقیات اور اصلیت اور حیثیت سے واقف نہیں ہے. اقبال کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی زات کی حقیقت یا معرفت حاصل کرلے اپنے آپ سے آگاہ ہوجائے تو یہ خود آگاہی اس کے لیے بہت قوت بخش ثابت ہوگی. اگر کوئی غلام بھی خودی کا ادراک حاصل کر لے تو اس کے اندر شہنشاہی کے جوہر پیدا ہوجائیں گے . گویا خودی کی وجہ سے غلامون کی زہنی عقلی اور انتظامی سطح بادشاہوں کے برابر ہوسکتی ہے.
Question: 10
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 1- دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوے اسد اللییٰ
Answer: 10
10-13
شاعر ؛ علامہ محمد اقبال تشریح : دارا سکندر بلاشبہ دو طاق وہ بادشاہ تھے.انہوں نے دنیا میں بڑی شان و شوکت سے حکومت کی ہے.اور بڑے بڑے وسیع علاقوں پر قبضہ کیا، جہاں ان کا طوطی بولتا تھا مگر علامہ اقبال ان بادشاہوں کے مقابلے میں اس فقیر اور مرد درویش کو بہتر اور اچھا سمجتھے ہیں جس کے پاس بے شک بادشاہؤں کا ساکرو فر اور مال و دولت نہیں ہے مگر اس کے اندر حضرت علی رض کی بہادری اور جرات کے ساتھ قناعر اور درویشی کی صفات موجود ہیں.
Question: 11
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 1 - نو مید نہ ہو ان سے، اے رہبر فرزانہ کم گوش تو ہیں لیکن بے زوق نہیں راہی
Answer: 11
11-13
شاعر ؛ علامہ محمد اقبال تشریح : مسلمانوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ انہیں اچھے ، باصلاحٰیت اورسمجھ دار راہ نما بہت کم ملے. اور راہنماؤں کو یہ شکوہ رہا کہ انہیں سچے پیروکار نہیں ملے اور یہ شکوہ بھی کہ قوم کے اندر جذبہ نہیں ہے. اقبال کہہ رہے ہیں کہ اے عقلمند راہ نما ، تمھیں مایوس نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ تمھارے چلنے ولاے افراد قوم اگرچہ تن آسانی کا شکار ہیں اور سست رو بھی ہیں. مقاصد کے حصول کےلیے بہت زیادہ کوشش بھی نہیں کرتے اور ان کے اندر کچھ آرام طلبی بھی آگئی ہے. لیکن مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے اندر جذبہ شوق اور کچھ ن کچھ کر گزرنے کا ارادہ ضرور موجود ہے. وہ اپنی زندگی کے حقیقی مقاصد سے بے بہرہ نہیں ہیں.
Question: 12
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 2- صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے
Answer: 12
12-13
شاعر ؛ علامہ محمد اقبال تشریح : علامہ اقبال کہتے ہیں کہ دنیا اس وقت ایک بت خانے کی شکل اختیار کرچکی ہے. لوگوں نے طرح طرح کے بت بںآلیے ہیں. پرانے زمانے میں پتھر کے بتوں کی پوجا ہوتی تھی لیکن اب دوسری نوعیت کے بت نظر آتے ہیں. جیے کہ دولت کا بت، اقتدار کا بت، شہرت کا بت، شان و شوکت کا بت، ظاہری بناوت اور نمائش کا بت، غرض لوگوں نے طرح طرح کے بت بنا رکھے ہیں. اور ان کی پرستش کرتے ہیں اگر ہم کلمہ طیبہ پر ایمان رکھتے ہیں اور توحید کے مطالبے کو سمجھتے ہیں تو بتوں کی نفی ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے حضرت ابراہیم علیہ جیسے بے باک اور جرآت مند انسان کی ضرورت ہے. حضرت ابراہیم رضہ نے نمرود کے سب سے بڑے بت خانے میں داخل ہوکر بت شکن کا کردار ادا کیاتھا. علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ آج پھر ہمیں ایسے مرد حق کی ضرورت ہے.
Question: 13
درج زیل اشعار کی تشریح کریں اور شاعر کا نام بھی لکھیں. غزل نمبر 2- مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
Answer: 13
13-13
شاعر : علامہ محمد اقبال تشریح : اقبال کی زندگی میں تعلیم و تربیت کے دو نظام چل رہے تھے. ایک تو جدید تعلیم تھی جو انگریزوں کےقائم کرداہ یا انھی کے طرز پر بنائے گئے سکولوں اور کالجوں میں دی جارہی تھی.دوسری طرف دینی تعلیم کے مدرسوں میں قدیم طرز کی تعلیم جاری تھی. علامہ اقبال شعر میں کہتے ہیں کہ میرے پیالے میں خالص شراب موجود ہے. تم اس کو غنیمت سمجھ کر پی سکتے ہو. یہاں خالص شراب سے مراد تصورات ہیں جو وہ اپنی شاعری کے زریعے پیش کررہے تھے.